میرا رب اللہ ہے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو، جس نے تمہیں اور تم سے پہلے کے لوگوں کو پیدا کیا، یہی تمہارا بچاؤ ہے۔} [البقرة: 21] ۔

  • اللہ تعالیٰ نے فرمایا : {وہی اللہ ہے، جس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں۔} [الحشر: 22]۔
  • اللہ تعالیٰ نے فرمایا : {اس جیسی کوئی چیز نہیں، اور وه سننے اور دیکھنے والا ہے۔} [الشورى: 11]۔
  • اللہ تعالیٰ میرا اور تمام چیزوں کا رب ہے، وہ ہر چیز کا مالک، رازق اور مدبر ہے۔
  • وہی تن تنہا عبادت کا مستحق ہے، اس کے سوا کوئی سچا رب نہیں اور اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ 
  • اللہ تعالی تمام  اسماء حسنی (اچھے ناموں) سے موسوم اور صفات علیا سے متصف ہے جنھیں اللہ تعالی نے خود اپنی کتاب میں اپنے لیے اور اپنے نبی محمد ﷺ کے زبانی ثابت کیا ہے،یہ ایسے نام و صفات ہیں جو حسن و خوبی اور کمال کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں،اللہ کے جیسی کوئی چیز ہی نہیں اور وہ سننے، دیکھنے والا ہے۔

االلہ تعالی کے بعض اسماے حسنی:

  • الرزاق
  • الرحمن
  • القدير
  • المَلِك
  • السميع
  • السلام
  • البصير
  • الوكيل
  • الخَالق
  • نص
  • اللطيف
  • الكافي
  • الغفور

* ایک مسلمان اس کائنات میں اللہ تعالی کی عجیب و غریب کاریگری اور اس کی جانب سےفراہم کردہ سہولیات پر غور و فکر کرتا ہے،وہ  دیکھتا ہے کہ دنیا میں ساری مخلوقات اپنے بچوں کا خاص خیال رکھتی ہیں اور ان کے بڑے ہونے تک انھیں کھلانے پلانے اور ان کی دیکھ بھال پر پوری توجہ صرف کرتی ہیں، وہ ذات کتنی پاک ہے جس نے ان مخلوقات کو پیدا کیا ہے اور ان کے ساتھ لطف و کرم کا برتاؤ کیا ہے جس کی ایک ادنی سی جھلک یہ ہے کہ مخلوقات کے لیے ان کے مکمل ضعف کے وقت ان کی دیکھ بھال اور پرورش و پرداخت کا انتظام کر دیا۔

میرا رب اللہ ہے

وہ جس نے بندوں کو روزی دینے کا ذمہ لے رکھا ہے، جو ان کے جسمانی اور روحانی نشو و نما کے لیے بے حد ضروری ہے۔

لامحدود اور بے پناہ رحمتوں والا جس کی رحمت کےدائرے سے کوئی چیز باہر نہیں۔

وہ ذات جو کامل قدرت کی مالک ہے اور اس کے اندر بے بسی اور سستى کا شائبہ تک نہیں ہے۔

جو عظمت، غلبہ اور تدبیر کی صفات سے متصف ہے، تمام چیزوں کا مالک اور ان میں تصرف کرنے والا ہے۔

 وہ جو تمام سری و جہری سنی جانے والی چیزوں کو سنتا ہے۔ 

وہ ذات جو ہر نقص، کمی اور عیب سے پاک ہو۔

وہ ذات جس کے دیکھنے کے دائرے سے کوئی چیز باہر نہ ہو جو ہر چھوٹی بڑی چیز کو دیکھ رہی ہو، اس کی خبر رکھتی ہو اور اس کی اندرونی باتوں سے واقف ہو۔

مخلوقات کی روزی کا کفیل، ان کے مصالح کو دیکھنے والا، ساتھ ہی اپنے اولیا کا حامی و ناصر بن کر ان کے لیے آسانیوں کی راہ ہموار کرنے والا، اور سارے معاملوں میں ان کی طرف سے کافی ہونے والا۔

وہ ذات جس نے کسی نمونے کے بنا چیزوں کو وجود بخشا ہے۔

وہ لطیف ذات جو اپنے بندوں کا اکرام کرتی ہے، ان پر رحم کرتی اور ان کی مرادیں پوری کرتی ہے۔

وہ جو بندوں کی تمام ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے اور جس کی مدد کے بعد کسی اور کے سہارے کی ضرورت نہیں رہتی اور جس کا ساتھ ملنے کے بعد دوسروں سے بے نیازی حاصل ہوجاتی ہے۔

وہ ذات جو اپنے بندوں کو ان کے گناہوں کے شر سے بچاتی ہے اور اس پر انہیں سزا نہیں دیتی۔

میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہیں

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
{تمہارے پاس ایک ایسے رسول تشریف لائے ہیں، جو تمہاری جنس سے ہیں، جن کو تمہاری مضرت کی بات نہایت گراں گزرتی ہے، جو تمہاری منفعت کے بڑے خواہش مند رہتے ہیں، ایمان والوں کے ساتھ بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں} [توبہ : 128]۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے} [الأنبياء: 107]۔

محمد صلی اللہ علیہ و سلم سراپا رحمت تھے اور بطور تحفہ عطا ہوئے تھے۔

آپ کا نام محمد بن عبداللہ ہے-صلى الله عليه وسلم- آپ نبیوں اور رسولوں کے سلسلے کی آخری کڑی تھے، اللہ نے آپ کو مذہب اسلام کے ساتھ پوری انسانیت کی جانب بھیجا تھا، تاکہ لوگوں کو ہر خیر کی طرف رہنمائی کریں جن میں سب سے عظیم توحید ہے اورانہیں ہر شر سے روکیں جن میں سب سے خطرناک شرک ہے۔
آپ ﷺ کے حکم کے تعمیل کرنا، آپ کی بتائی ہوئی باتوں کی تصدیق کرنا، آپ کی منع کی ہوئی باتوں سے اجتناب کرنا اور صرف آپ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اللہ کی عبادت کرنا واجب ہے۔

آپ کا اور آپ سے پہلے کے تمام نبیوں کا مشن تھا، اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت کی دعوت دینا۔

آپ کے کچھ اوصاف اس طرح ہیں : 

  • سچائی
  • رحمت
  • بردباری
  • صبر
  • شجاعت
  • سخاوت
  • حسن اخلاق
  • عدل وانصاف
  • تواضع
  • درگزر کرنا 

قرآن کریم میرے رب کا کلام ہے

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے سند اور دلیل آپہنچی اور ہم نے تمہاری جانب واضح اور صاف نور اتار دیا ہے} [سورہ النساء : 174]۔

قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جسے اس نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر اتارا تاکہ کہ لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی جانب لے آئیں اور انہیں سیدھی راہ دکھا دیں۔
اسے پڑھنے والے کو بڑا اجر و ثواب ملتا ہے اور اس کے بتائے ہوئے راہ ہدایت پر عمل کرنے والا ہی دراصل سچائی کی راہ پر گامزن ہے۔

اب میں اسلام کے ارکان سیکھتا ہوں

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے : «اسلام کی بنیاد پانچ ارکان پر رکھی گئی ہے، اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکاۃ دینا، رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا»۔
ارکان اسلام ایسی عبادتیں ہیں جو ہر مسلمان پر لازم ہيں، ان کے وجوب کا عقیدہ رکھے اور ان پر عمل کیے بنا کسی انسان کا اسلام صحیح نہیں ہو سکتا، کیوںکہ اسلام کی عمارت انھیں ستونوں پر کھڑی ہے،اسی بنا پر انھیں ارکان اسلام کا نام بھی دیا گیا ہے۔

یہ پانچ ارکان اس طرح ہیں :

اب میں اسلام کے ارکان سیکھتا ہوں

پہلا رکن

اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہيں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہيں۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: { جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں} [محمد : 19]۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے: { تمھارے پاس ایک ایسے رسول تشریف لائے ہیں، جو تمھاری جنس سے ہیں، جن کو تمھاری مضرت کی بات نہایت گراں گزرتی ہے، جو تمھاری منفعت کے بڑے خواہش مند رہتے ہیں، ایمان والوں کے ساتھ بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں۔} [توبہ : 821]۔

  • اللہ کے علاوہ کسی اور کے معبود نہ ہونے کی گواہی دینے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی برحق معبود نہیں ہے۔
  • اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے اللہ کے رسول ہونے کی گواہی دینے کا مطلب ہے: آپ کے حکموں کی تعمیل کرنا، آپ کی بتائی ہوئی باتوں کو سچ جاننا، آپ کى منع کی ہوئی چیزوں سے دور رہنا اور آپ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہی اللہ کی عبادت کرنا۔

 

دوسرا رکن

 نماز قائم کرنا

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {اور نماز قائم کرو} [البقرۃ : 110]۔

  • نماز قائم کرنے کا عمل رو بہ عمل آئے گا اسے اللہ کے بتائے ہوئے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے سکھائے ہوئے طریقے کے مطابق ادا کرنے سے۔

 

تیسرا رکن

 زکوۃ دینا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {اور زکوۃ دو} [البقرۃ : 110]۔

هو محمد بن عبدالله ﷺ خاتم الأنبياء والمرسلين، أرسله الله تعالى بدين الإسلام إلى الناس كافَّة، ليدلهم علي الخير وأعظمه التوحيد، وينهاهم عن الشر وأعظمه الشرك. تجبُ طاعته فيما أمر وتصديقه فيما أخبر، واجتناب ما نهى عنه وزجر، وألَّا يُعبد الله إلا بما شرع.
رسالته ورسالة جميع الأنبياء من قبله الدعوة إلى عبادة الله وحده لا شريك له.

  • اللہ تعالی نے زکاۃ اس لیے فرض کی ہے تاکہ یہ آزما سکے کہ بندے کا ایمان کتنا سچا ہے، وہ اپنے رب کی جانب سے ملنے والی نعمت مال پر اس کا کتنا شکر ادا کرتا ہے اور اس کے ساتھ ہی محتاجوں اور ضرورت مندوں کی مدد بھی ہو جائے۔ زکاۃ ادا کرنے کا عمل اسے مستحق لوگوں کے حوالے کرنے سے انجام پذیر ہوتا ہے۔
  • مال جب ایک معین مقدار کو پہنچ جائے تو زکاۃ اس میں واجب ہونے والا حق ہے، جسے   آٹھ طرح کے لوگوں کو دیا جائے گا، جن کا اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ذکر کیا ہے اور جن میں فقیر اور مسکین بھی داخل ہیں۔
  • اسے ادا کرنا اللہ کی مخلوق پر رحمت و مہربانی کی علامت، مسلمان کے اخلاق و اموال کی تطہیر کا سامان، فقیروں اور مسکینوں کے دلوں کو راضی کرنے کا ذریعہ اور مسلم سماج کے افراد کے درمیان محبت اور بھائی چارہ کے جذبے کو فروغ دینے کا سبب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک صالح مسلمان زکاۃ خوشی خوشی ادا کرتا ہے اور اپنے اس عمل کو اپنی سعادت سمجھتا ہے، کیوں کہ اس سے دوسرے لوگوں کی زندگی میں خوشیاں آتی ہیں۔
  • زکاۃ کی مقدار: سونا، چاندی، نوٹ اور نفع کے حصول کی خاطر خرید و فروخت کے لیے تیار تجارتی سامانوں کا ڈھائی فی صد ہے، جب ان کی قیمت ایک معین مقدار کو پہنچ جائے اور ان پر پورا سال گزر جائے۔
  • اسی طرح ایک معین تعداد میں چوپایے (اونٹ، گائے اور بکری) رکھنے والے پر بھی زکاۃ فرض ہے، جب وہ سال کا بیشتر حصہ چر کر گزارتے ہوں اور ان کا مالک ان کو باندھ کر چارہ نہ  دیتا ہو۔
  • اسی طرح زمین سے نکلنے والے غلوں، پھلوں، معدنیات اور خزانوں پر بھی، اگر ایک معین مقدار کو پہنچ جائیں تو زکوۃ فرض ہے۔

 

چوتھا رکن

ماہ رمضان کے روزے رکھنا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: { اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو } [البقرۃ : 011]۔

  • رمضان ہجری کیلنڈر کے سال کا نواں مہینہ ہے، یہ مسلمانوں کے یہاں ایک عظیم مہینہ ہے اور سال کے باقی مہینوں میں اسے ایک خاص مقام حاصل ہے، اس پورے مہینے کا روزہ رکھنا اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک ہے۔
  • ماہ رمضان کے روزوں سے مراد: رمضان المبارک کے پورے مہینے کے دنوں میں طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے، جماع اور دیگر سارے روزہ توڑ دینے والے کاموں سے بطور عبادت بچے رہنا ہے۔

 

پانچواں رکن

 اللہ کے مقدس گھر کا حج کرنا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر جو اس کی طرف راه پا سکتے ہوں اس گھر کا حج فرض کر دیا ہے} [آل عمران : 79]۔

  • حج طاقت رکھنے والے شخص پر عمر میں ایک بار فرض ہے، حج نام ہے معین وقت کے اندر معین عبادتوں کو ادا کرنے کے لیے، مکہ میں واقع اللہ کے مقدس گھر اور دیگر مقدس مقامات کا رخ کرنے کا۔ اللہ کے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی حج کیا ہے اور آپ سے پہلے کے دیگر نبیوں نے بھی حج کیا ہے،اللہ نے ابراہیم علیہ السلام کو حکم بھی دیا تھا کہ لوگوں میں حج کا اعلان کر دیں، جس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالی نے قرآن پاک کے اندر فرمایا ہے : { اور لوگوں میں حج کی منادی کر دے، لوگ تیرے پاس پا پیاده بھی آئیں گے اور دبلے پتلے اونٹوں پر بھی اور دور دراز کی تمام راہوں سے آئیں گے} [سورہ الحج : 27].

 

اب میں ایمان کے ارکان سیکھتا ہوں

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ایمان کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا : « اللہ پر ایمان لانا، اس کے فرشتوں پر ایمان لانا، اس کی کتابوں پر ایمان لانا، اس کے رسولوں پر ایمان لانا، قیامت کے دن پر ایمان لانا اور اچھی وبُری تقدیر پر ایمان لانا۔»
ارکان ایمان سے مراد وہ قلبی عبادات ہیں جو ہر مسلمان پر لازم ہيں اور جن کا عقیدہ رکھے بغیر کسی مسلمان کا اسلام درست نہيں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ ان کو ارکان ایمان کہا گیا ہے۔
ان کے اور ارکان اسلام کے درمیان فرق یہ ہے کہ ارکان اسلام ایسی ظاہری عبادتیں ہیں جسے انسان اپنے اعضائے جسم کے ذریعے ادا کرتا ہے، جیسے اللہ ہی کے سچے معبود اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے اس کے رسول ہونے کی گواہی دینا، نماز قائم کرنا اور زکاۃ دینا وغیرہ،ارکان ایمان ایسی قلبی عبادتیں ہیں جنھیں انسان اپنے دل سے ادا کرتا ہے، جیسے اللہ، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لانا۔

ایمان کا معنی و مفہوم:
ایمان نام ہے اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، آخرت کے دن اور بھلی بری تقدیر کا دل سے قطعی تصدیق کرنے کا ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی لائی ہوئی ساری باتوں کی اتباع کرنے کا اور آخر میں اتباع کو تطبیقى شکل دینے کا، چنانجہ ایمان کے جن باتوں کا تعلق زبان سے ہو ان کو زبان سے ادا کیا جائے، جیسے لا الہ الا اللہ کا اقرار، قرآن پڑھنا، تسبیح و تہلیل اور اللہ کی حمد و ثنا وغیرہ،
اور جسم کے ظاہری اعضا سے عمل کیا جائے: جیسے نماز پڑھنا، حج کرنا اور روزہ رکھنا وغیرہ نیز قلب سے تعلق رکھنے والے باطنی اعضاء سے عمل کیا جائے، جیسے اللہ کی محبت، اس کا خوف، اس پر بھروسہ اور اس کے لیے اخلاص وغیرہ۔
اہل تخصص نے ایمان کی مختصر تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایمان نام ہے، دل میں عقیدہ رکھنے، زبان سے بولنے اور جسم کے اعضا سے عمل کرنے کا، جو اطاعت سے بڑھتا اور معصیت سے گھٹتا ہے۔

اب میں ایمان کے ارکان سیکھتا ہوں

پہلا رکن

 اللہ پر ایمان

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {مومن تو وه ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر (پکا) ایمان لائیں} [النور : 62]۔

  • اللہ پر ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کو اس کے رب اور معبود ہونے اور اس کے ناموں اور صفات میں اکیلا مانا جائے، اس کے اندر درج ذیل باتیں شامل ہيں:

  •  اللہ پاک کے وجود پر ایمان۔

  •  اس کے رب ہونے اور ہر چیز کے مالک، خالق، رازق اور مدبر ہونے پر ایمان۔

  •  اس کے معبود ہونے اور اکیلے اس طرح عبادت کے مستحق ہونے پر ایمان کہ نماز، دعا، نذر، ذبح، فریاد، پناہ طلبی اور دیگر ساری عباتوں میں اس کا کوئی شریک نہيں ہے۔

  •  اس کے اچھے اچھے ناموں اور اعلی صفات پر ایمان جنھیں خود اس نے اپنے لیے یا اس کے نبی نے اس کے لیے ثابت کیا ہے، اور ان ناموں اور صفات کی نفی کرنا جن سے خود اللہ نے اپنے آپ کو یا اس کے رسول نے اسے پاک قرار دیا ہے، ساتھ ہی اس بات پر ایمان کہ اس کے سارے نام و صفات حد درجہ کمال اور حسن کے حامل ہيں اور اللہ کے جیسی کوئی چیز نہیں ہے لیکن اس کے باوجود وہ سننے اور دیکھنے والا ہے۔

دوسرا رکن

 فرشتوں پر ایمان

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {اس اللہ کے لیے تمام تعریفیں سزاوار ہیں، جو (ابتداءً) آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا اور دو دو تین تین چار چار پروں والے فرشتوں کو اپنا پیغمبر (قاصد) بنانے والا ہے، تخلیق میں جو چاہے زیادتی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ یقیناً ہر چیز پر قادر ہے} [فاطر: 1 ]۔

  • ہمارا ایمان ہے کہ فرشتے عالم غیبی کا حصہ اور اللہ کے بندے ہيں، جنھیں اس نے نور سے پیدا کیا ہے اور ان کی فطرت میں اپنی فرماں برداری و تذلل ودیعت کر دی ہے۔
  • فرشتے اللہ کی ایک عظیم مخلوق ہیں جن کی قوت اور تعداد کا علم اللہ کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے، ہر فرشتے کو اللہ نے کچھ اوصاف، نام اور ذمے داریاں دے رکھی ہیں، ایک فرشتے کا نام جبرائیل ہے جن کے ذمے رسولوں کو اللہ کی وحی پہنچانے کا کام ہے۔

 

تیسرا رکن

کتابوں پر ایمان

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {(اے مسلمانو!) «تم سب کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس چیز پر بھی جو ہماری طرف اتاری گئی اور جو چیز ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب (علیہم السلام) اور ان کی اولاد پر اتاری گئی اور جو کچھ اللہ کی جانب سے موسیٰ اور عیسیٰ (علیہما السلام) اور دوسرے انبیا (علیہم السلام) دیے گئے، ہم ان میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے، ہم اللہ کے فرماںبردار ہیں}۔ [البقرۃ: 136]۔

  • اس بات کی قطعی تصدیق کہ ساری آسمانی کتابیں اللہ کا کلام ہیں۔
  • انھیں اللہ کی جانب سے اس کے رسولوں پر اتارا گیا ہے، تاکہ اس کے بندوں کو پہنچا دیا جائے۔
  • اللہ نے پورے بنی نوع انسانی کی جانب اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو بھیجا، آپ کی شریعت کے ذریعے سابقہ ساری شریعتوں کو منسوخ کر دیا، قرآن پاک کو ساری آسمانی کتابوں کا نگراں ، ان پر گواہ اور ان کا ناسخ بنایا اور اس مقدس کتاب کو کسی بھی تبدیلی یا تحریف سے محفوظ رکھنے کی ذمے داری اپنے اوپر لے لی۔ اس کا فرمان ہے : {بے شک ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں} [الحجر: 9]؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن بنی نوع انسانی کی جانب اترنے والی اللہ کی آخری کتاب ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری رسول ہیں اور اسلام قیامت کے قیام تک سارے انسانوں کے لیے اللہ کا منتخب کردہ مذہب ہے۔اللہ تعالى کا فرمان ہے۔: {بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے}۔ [آل عمران: 19]۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن پاک میں جن آسمانی کتابوں کا ذکر کیا ہے وہ درج ذیل ہیں :

  • 1  قرآن کریم :  اسے جہاں پر اللہ تعالیٰ حکم دے رہا ہو، وہاں پر اللہ کے ساتھ تعالیٰ بھی لکھا جاتا ہے۔ ہمیں اس کا التزام کرنا چاہیئے۔ شکریہ نے اپنے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر اتارا ہے۔
  • 2 تورات: اسے تعالیٰ نے اپنے نبی موسی علیہ السلام پر اتارا ہے۔
  • 3 انجیل: اسے تعالیٰ نے اپنے نبی عیسی علیہ السلام پر اتارا ہے۔
  • 4 زبور: اسے تعالیٰ نے اپنے نبی داوود علیہ السلام پر اتارا ہے۔
  • 5 ابراہیم کے صحیفے: انھیں تعالیٰ نے اپنے نبی ابراہیم علیہ السلام پر اتارا ہے۔

چوتھا رکن

رسولوں پر ایمان لانا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو!) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو} [النحل: 36]۔

  • رسولوں پر ایمان کا مطلب ہے اس بات کی پختہ تصدیق کہ اللہ نے ہر امت کے اندر ایک رسول بھیجا ہے، تاکہ وہ لوگوں کو صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے کى طرف بلائیں اور اللہ کے علاوہ جن باطل معبودوں کی پوجا کی جاتی ہے ان کے انکار کرنے کی دعوت دیں۔
  • یہ سارے نبی، انسان، مرد اور اللہ کے بندے تھے، سچ بولتے تھے، لوگ انھیں سچا مانتے تھے، متقی تھے، امانت دار تھے، خود اللہ کی راہ پر چلتے تھے اور لوگوں کی اللہ کی راہ کی جانب بلاتے تھے، اللہ نے انھیں کچھ معجزے عطا کیے تھے، جو ان کی سچائی پر دلالت کرتے تھے، انھوں نے اللہ کے پیغام کو ہوبہو پہنچا دیا، یہ سارے انبیاء واضح حق اور روشن ہدایت پر مطلب رواں دواں تھے۔ گامزن تھے۔
  • شروع سے آخر تک تمام رسولوں کی دعوت بنیادی طور پر ایک تھی، ان کی اصل دعوت تھی صرف ایک اللہ کی عبادت کرنا اور کسی کو اس کا شریک نہ بنانا۔

 

پانچواں رکن

یومِ آخرت پر ایمان

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {اللہ وه ہے جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وه تم سب کو یقیناً قیامت کے دن جمع کرے گا، جس کے (آنے) میں کوئی شک نہیں، اللہ تعالیٰ سے زیاده سچی بات والا اور کون ہوگا} [النساء : 87]۔

  • یوم آخرت پر ایمان کا مطلب ہے آخرت کے دن سے تعلق رکھنے والی ان تمام باتوں کی پختہ تصدیق جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں معلومات فراہم کی ہیں یا ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں بتایا ہے۔ جیسے انسان کی موت، قیامت کے دن دوبارہ اٹھایا جانا، میدان حشر میں جمع کیا جانا، شفاعت، میزان، حساب و کتاب اور جنت و جہنم، نیز ہر وہ چیز جس کا تعلق یوم آخرت سے ہو۔

 

چھٹا رکن

بھلی بری تقدیر پر ایمان

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {بے شک ہم نے ہر چیز کو ایک (مقرره) اندازے پر پیدا کیا ہے} [قمر: 49]۔

  • بھلی بری تقدیر پر ایمان سے مراد اس بات کا پختہ عقیدہ رکھنا ہے: کہ مخلوقات کو اس دنیا میں جتنے حوادث کا سامنا ہوتا ہے، اللہ وحدہ لا شریک لہ کے علم، اس کے فیصلے اور اس کی تدبیر سے ہوتا ہے نیز یہ سارے فیصلے انسان کی تخلیق سے پہلے ہی لکھ لیے گئے تھے، اور اس بات کا پختہ عقیدہ رکھنا کہ انسان کے پاس بھى ارادہ ومشیت ہے اور وہ اپنے افعال کو حقیقی طور پر انجام دیتا ہے،البتہ اس کا ارادہ، اس کی مشیت نیز اس کے افعال اللہ کے علم، ارادے اور مشیت کے باہر نہیں ہوتے۔

اس طرح تقدیر پر ایمان کے چار مراتب ہیں :

 

  • پہلا مرتبہاللہ کے ہمہ گیر علم پر ایمان۔
  • دوسرا مرتبہاس بات پر ایمان کہ اللہ نے قیامت کے دن تک وقوع پذیر ہونے والی تمام باتوں کو لکھ رکھا ہے۔
  • تیسرا مرتبہاللہ کے نافذ ہوکر رہنے والے ارادے اور قدرت تامہ پر ایمان کہ وہ جو چاہے گا ہوگا اور جو نہيں چاہے گا نہیں ہوگا۔
  • چوتھا مرتبہاس بات پر ایمان کہ اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور اس کام میں اس کا کوئی شریک نہيں ہے۔

اب میں وضو سیکھتا ہوں

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {بے شک اللہ بہت زیادہ توبہ کرنے والوں اور بہت زیادہ پاک صاف رہنے والوں کو پسند کرتا ہے} [سورہ البقرۃ : 222]۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : «جس نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا، پھر اس طرح دو رکعت نماز پڑھی کہ نماز کے دوران اپنے نفس سے بات نہیں کی، اللہ اس کے پچھلے تمام گناہوں کو بخش دے گا۔».

نماز کی اہمیت کا ایک پہلو یہ ہے کہ اللہ نے اس سے پہلے طہارت حاصل کرنے کا حکم دیا ہے اور اسے صحتِ نماز کی شرط قرار دیا ہے، طہارت نماز کی کنجی ہے اور اس کی فضیلت کا احساس دل کے اندر نماز ادا کرنے کا شوق پیدا کرتا ہے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے : «طہارت آدھا ایمان ہے... اور نماز نور ہے۔».
رسول اللہ ﷺ ایک اور حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں : «جو شخص اچھی طرح سے وضو کرتا ہے، اس کے جسم سے سارے گناہ نکل جاتے ہیں»۔

بندہ اپنے رب کے سامنے طہارت کی حالت میں، حسی طہارت وضو کے ذریعہ اور معنوی طہارت اس عبادت کو اخلاص کے ساتھ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ادا کرکے، حاضر ہوتا ہے۔

وہ کام جن کے لیے وضو ضروری ہے :

  • 1 ہر طرح کی نماز کے لیے، فرض ہو یا  نفل۔
  • 2 عبے کے طواف کے لیے۔
  • 3 مصحف کو چھونے کے لیے۔

میں وضو اور غسل پاک پانی سے کروں گا :

پاک پانی سے مراد ہر وہ پانی ہے جو آسمان سے برسے یا زمین سے نکلے، پھر اپنی اصلی حالت میں موجود رہے، اور پانی کی پاکی کو سلب کرنے والی کسی چیز کی وجہ سے اس کے تین اوصاف یعنی رنگ، مزہ اور بو میں سے کوئی وصف تبدیل نہ ہوا ہو۔

اب میں وضو سیکھتا ہوں

نیت کرنا اس کا محل دل ہے۔ نیت کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے عبادت کو انجام دینے کا دل میں ارادہ کرنا۔

دونوں ہتھیلیوں کو دھونا۔

کلی کرنا
کلی کرنے کا مطلب ہے منہ میں پانی ڈال کر اسے گھمانا اور پھر باہر نکال دینا۔

ناک میں پانی چڑھانا
یعنی سانس کے ذریعہ پانی کھینچ کر ناک کے آخری حصے تک لے جانا۔
پھر ناک جھاڑنا: یعنی ناک کے اندر موجود گندگیوں کو سانس کے ذریعے باہر نکال دینا۔

رے کو دھونا
چہرے کی حد :
چہرے کے لیے عربی میں مستعمل لفظ (الوجہ) کے معنی جسم انسانی کے اس حصے کے ہیں جو کسی سے ملتے وقت سامنے ہوتا ہے۔
چوڑائی میں اس کی حد ایک کان سے دوسرے کان تک ہے۔
جب کہ لمبائی میں اس کی حد چہرے کے بال اگنے کی جگہ سے ٹھڈی کے آخری حصے تک ہے۔
چہرے کے دھونے کے اندر اس میں اگے ہوئے ہلکے بالوں اور کنپٹیوں اور کنپٹیوں و کانوں کے بیچ کے حصوں کا دھونا بھی شامل ہے۔
یہاں اصل کتاب میں آئے ہوئے لفظ (البیاض) کے معنی ہيں کنپٹی اور کان کی لو کے بیچ کا حصہ۔
جب کہ اس میں آئے ہوئے (العذار) لفظ کے معنی ہیں: کان کے سوراخ کے سامنے واقع ابھری ہوئی ہڈی، جو سر سے کان کے نچلے حصے تک پھیلی ہوتی ہے، پر اگے ہوئے بال۔
اسی طرح چہرے کو دھونے کے اندر داڑھی کے گھنے بالوں کے ظاہری حصے اور لٹکے ہوئے بالوں کو دھونا بھی شامل ہے۔
دونوں ہاتھوں کو انگلیوں کے کناروں سے دونوں کہنیوں تک دھونا۔

دونوں ہاتھوں کو انگلیوں کے کناروں سے دونوں کہنیوں تک دھونا۔
دونوں کہنیوں کو دھونا بھی فرض ہے۔

دونوں ہاتھوں سے سر کا دونوں کانوں کے ساتھ ایک بار مسح کرنا۔
آغاز سر کے اگلے حصے سے ہوگا، اس کے بعد دونوں ہاتھوں کو گدی تک لے جایا جائے گا اور پھر انھیں سر کے اگلے حصے تک لایا جائے گا۔ شہادت کی دونوں انگلیوں کو دونوں کانوں میں ڈالا جائے گا
اور دونوں انگوٹھوں کو دونوں کانوں کے باہری اس اسپیس کو صحیح کیجیئے۔اس طرح کان کے ظاہری اور باطنی دونوں حصوں کا مسح کیا جائے گا۔

دونوں پیروں کو پیروں کی انگلیوں سے لے کر ٹخنوں تک دھونا، دونوں ٹخنوں کو دھونا بھی فرض ہے۔
ٹخنو ں سے مراد وہ ہڈیاں ہیں جو پنڈلی کے نیچے ابھری ہوئی ہوتی ہیں۔

ان امور سے وضو باطل ہو جاتا ہے

  • 1 پیشاب اور پاخانے کے راستے سے پیشاب، پاخانہ، ہوا، مذی اور منی وغیرہ کسی چیز کا نکلنا۔
  • 2  گہری نیند، بے ہوشی، نشہ آور اشیاء کے استعمال یا پاگل پن کی وجہ سے عقل کا زائل ہو جانا۔
  • 3 غسل واجب کرنے والی ساری چیزیں جیسے جنابت، حیض اور نفاس وغیرہ۔

جب انسان قضائے حاجت سے فارغ ہو تو لازمی طور پر نجاست کو یا تو پاک پانی سے دور کرے، جو کہ افضل ہے یا پھر پانی کے علاوہ پتھر، کاغذ اور کپڑے وغیرہ نجاست زائل کردینے والى چیزوں سے نجاست دور کرے  ،اس جملے کو صحیح  سے سیٹ کیجیئے۔بشرطیکہ وہ طاہر ہو، تین یا اس سے زیادہ بار اس طرح سے صاف کرے کہ نجاست دور ہو جائے۔

خف اور جورب (چمڑے اور کپڑے وغیرہ سے بنے موزوں) پر مسح

چمڑے یا کپڑے کے موزے پہنے ہونے کی صورت میں انھیں نکال کر دھونے کے بجائے ان پر مسح کیا جا سکتا ہے، لیکن اس کے لیے درج ذیل شرطیں ہیں :

  • 1 انھیں حدث اصغر اور حدث اکبر سے ایسی مکمل طہارت حاصل کرنے کے بعد پہنا گیا ہو جس میں پیروں کو دھویا گیا ہو۔
  • 2 دونوں پاؤں پاک ہوں، گندے نہ ہوں۔
  • 3 مسح اس کے لیے مقررہ وقت کے اندر کیا گیا ہو۔
  • 4 دونوں موزے حلال ہوں، چرائے ہوئے یا غصب کیے ہوئے نہ ہوں۔

خف› سے مراد پیروں میں پہنے جانے والے پتلے چمڑے وغیرہ کے موزے ہیں، اسی کے حکم میں وہ جوتے بھی آ جاتے ہيں، جو دونوں قدموں کو ڈھانک کر رکھتے ہيں۔
جب کہ لفظ (جورب) سے مراد کپڑے وغیرہ کے موزے ہیں، جو پیروں میں پہنے جاتے ہیں۔

خف اور جورب (چمڑے اور کپڑے وغیرہ سے بنے موزوں) پر مسح

موزوں پر مسح کرنے کی اجازت دینے کی حکمت :
موزوں پر مسح کی حکمت ہے مسلمانوں کے لیے آسانی فراہم کرنا، جنھیں موزے اتار کر پیروں کو دھونے میں پریشانی ہوتی ہے خاص طور سے جاڑے اور سخت ٹھنڈی کے وقت اور سفر کی حالت میں ۔

مسح کی مدت :

مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات (چوبیس گھنٹے)۔

مسافر کے لیے تین دن اور تین رات (72 گھنٹے)۔

مسح کی مدت کی شروعات حدث کے بعد موزوں پر کیے جانے والے پہلے مسح سے ہوتی ہے۔

چمڑے یا کپڑے وغیرہ سے بنے موزوں پر مسح کرنے کا طریقہ :

  • 1 دونوں ہاتھوں کو بھگویا جائے گا۔
  • 2 ہاتھ کو قدم کے ظاہری حصے پر پھیرا جائے گا۔ (انگلیوں کے کناروں سے پنڈلی کے آغاز تک)۔
  • 3 دائیں قدم کا دائیں ہاتھ سے اور بائیں قدم کا بائیں ہاتھ سے مسح کیا جائے گا۔

مسح کو باطل کرنے والی چیزیں :

  • 1 غسل کو واجب کرنے والی ساری چیزیں۔
  • 2 مسح کی مدت کا ختم ہو جانا۔

غسل

جب مرد یا عورت ہم بستری کریں یا دونوں میں سے کسی سے بیداری یا نیند کی حالت میں شہوت کے ساتھ منی نکل جائے، تو ان پر نماز ادا کرنے یا دوسرے کسی ایسے کام سے پہلے جس کے لیے طہارت ضروری ہے غسل کرنا واجب ہے۔ اسی طرح جب کوئی عورت حیض اور نفاس سے پاک ہو تو نماز پڑھنے یا کوئی اور کام کرنے سے پہلے جس کے لیے طہارت ضروری ہے غسل کرنا واجب ہے۔

غسل

غسل کا طریقہ کچھ اس طرح ہے :
پورے بدن کو چاہے جیسے بھی ہو پانی سے دھویا جائے، اس میں کلی اور ناک میں پانی ڈال کر جھاڑنا بھی شامل ہے، جب انسان اپنے پورے بدن کو پانی سے دھو لے تو اس کا حدث اکبر دور ہو جاتا ہے اور اس کی طہارت مکمل ہو جاتی ہے۔

جنبی شخص کے لیے غسل سے پہلے درج ذیل کام ممنوع ہیں :

  • 1 نماز.
  • 2 کعبے کا طواف۔
  • 3 مسجد میں رکنا، بغیر رکے صرف گزر جانا جائز ہے۔
  • 4 مصحف کو چھونا۔
  • 5 قرآن پڑھنا۔

تیمّم

جب کسی کو طہارت حاصل کرنے کے لیے پانی نہ مل سکے یا بیماری وغیرہ کی وجہ سے پانی استعمال نہ کر سکے اور نماز کا وقت نکل جانے کا خوف ہو تو مٹی سے تیمم کرے گا۔

تیمّم

اس کا طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کو ایک بار مٹی پر مارے اور پھر ان سے اپنے چہرے اور دونوں ہتھیلیوں کا مسح کرے۔ مسح کرنے کے لیے مٹی کا پاک ہونا ضروری ہے۔

ان باتوں سے تیمم باطل ہو جاتا ہے :

  • 1 تیمم ان تمام چیزوں سے باطل ہو جاتا ہے جن سے وضو باطل ہوتا ہے۔
  • 2 جب اس عبادت کو شروع کرنے سے پہلے، جس کے لیے تیمم کیا گیا تھا، پانی مل جائے یا پانی کے استعمال کی قدرت حاصل ہو جائے۔

اب میں نماز سیکھوں گا

اب میں نماز کی تیاری کروں گا

  • جب نماز کا وقت آ جائے تو مسلمان حدث اصغر سے پاکی حاصل کرے اور اگر حدث اکبر میں ہو تو اس سے بھی پاکی حاصل کر لے۔

یاد رہے کہ حدث اکبر وہ ناپاکی ہے،جس سے ایک مسلمان پر غسل واجب ہوتا ہے۔
جب کہ حدث اصغر وہ ناپاکی ہے جس سے وضو واجب ہوتا ہے۔

  • مسلمان پاک لباس پہن کر نجاستوں سے پاک جگہ میں ستر عورہ کے ساتھ نماز پڑھے گا۔
  • نماز کے وقت مناسب لباس سے زیب و زینت اختیار کرے گا اور اس سے اپنے جسم کو ڈھانپ کر رکھے گا۔ مرد کے لیے نماز کی حالت میں ناف سے گھٹنے کے بیچ کا کوئی بھی حصہ کھولنا جائز نہيں ہے۔
  • جب کہ عورت پر نماز کی حالت میں چہرے اور ہتھیلیوں کو چھوڑ کر پورے جسم کو ڈھانپنا واجب ہے۔
  • مسلمان نماز کی حالت میں ان باتوں کے علاوہ کوئی بات نہیں بولے گا جو نماز کے ساتھ خاص ہیں۔ امام کی قراءت دھیان سے سنے گا اور اَدھر اِدھر منہ نہيں پھیرے گا، اگر نماز میں کہی جانے والی باتوں کو یاد نہ کرنے سے عاجز ہو تو نماز کے آخر تک اللہ کے ذکر اور اس کی تسبیح میں مشغول رہے گا، لیکن اس پر لازم ہے کہ جلد سے جلد نماز اور اس میں کہی جانے والی باتوں کو سیکھ لے۔

اب میں نماز سیکھوں گا

جس فریضے کی ادائیگی کا ارادہ ہو اس کے لیے نیت کرنا، نیت کا محل دل ہے۔
وضو کرنے کے بعد میں قبلے کی جانب منہ کر لوں گا اور طاقت ہونے پر کھڑے ہوکر نماز پڑھوں گا۔

 دونوں ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھاؤں گا اور نماز میں داخل ہونے کی نیت سے 'اللہ اکبر' کہوں گا۔

میں نماز کے آغاز کی ان میں سے کوئی ایک دعا پڑھوں گا جو حدیث میں آئی ہوئی ہیں، ان میں سے ایک دعا ہے : «اے اللہ! تو پاک ہے، تیری ہی تعریف ہے، تیرا نام بابرکت ہے، تیری شان سب سے اونچی ہے اور تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے۔»

میں دھتکارے ہوئے شیطان سے اللہ کی پناہ مانگوں گا، کہوں گا: «میں شیطان مردود کے شر سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں»۔

میں ہر رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھوں گا، سورہ فاتحہ اس طرح ہے : {اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو بڑا مہربان، نہایت رحم کرنے والا ہے(1) ساری تعریف اللہ کے لیے ہے جو سارے جہان کا رب ہے(2) بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے(3)بدلے کے دن کا مالک ہے(4) ہم بس تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور بس تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں(5) ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرما (6) ان لوگوں کا راستہ جن پر تونے انعام کیا ہے، نہ کہ ان لوگوں کا (راستہ) جن پر تیرا غضب نازل ہوا اور نہ ان کا جو گمراہ ہوئے(7)۔}
ہر نماز کی صرف پہلی اور دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد قرآن کا کچھ حصہ جو پڑھا جا سکے، پڑھوں گا، یہ گرچہ واجب نہيں ہے لیکن بڑے اجر و ثواب کا کام ہے۔

میں (اللہ اکبر) کہوں گا، پھر رکوع کروں گا، رکوع کی حالت میں میری پیٹھ سیدھی ہوگی، دونوں ہاتھ دونوں گھٹنوں پر ہوں گے اور ہاتھ کی انگلیاں ایک دوسرے سے الگ رہیں گی، پھر میں رکوع میں کہوں گا : «سبحان ربی العظیم»۔

میں «سمع اللہ لمن حمدہ» کہتے ہوئے اور دونوں ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھاتے ہوئے رکوع سے اٹھوں گا۔ جب میرا جسم ٹھیک سے کھڑا ہو جائے تو کہوں گا : «ربنا و لک الحمد»۔

میں 'اللہ اکبر' کہوں گا اور دونوں ہاتھوں، دونوں گھٹنوں، دونوں قدموں، پیشانی اور ناک پر سجدہ کروں گا، سجدے میں کہوں گا : «سبحان ربی الاعلی»۔

میں 'اللہ اکبر' کہوں گا اور سجدے سے سر اٹھاؤں گا یہاں تک کہ پیٹھ سیدھی کرکے بائیں قدم پر بیٹھ جاؤں گا اور دائيں قدم کو کھڑا رکھوں گا، اس حالت میں یہ دعا پڑھوں گا : «ربی اغفر لی»۔

میں 'اللہ اکبر' کہوں گا اور پہلے سجدے کی طرح ہی دوسرا سجدہ کروں گا۔

 سجدے سے «اللہ اکبر» کہتے ہوئے اٹھوں گا اور بالکل سیدھا کھڑا ہو جاؤں گا اس کے بعد نماز کی باقی رکعتوں میں وہ سارے کام کروں گا جو پہلی رکعت میں کیے تھے۔

ظہر، عصر، مغرب اور عشا کی دوسری رکعت کے بعد پہلا تشہد پڑھنے کے لیے بیٹھ جاؤں گا، پہلا تشہد کچھ اس طرح ہے : «ساری حمد وثنا، تمام دعائیں اور ہر طرح کے اچھے اعمال اور اقوال اللہ کے لئے ہیں، اے نبی! آپ پر سلام ہو اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکت نازل ہو، سلام ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد (ﷺ) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں»۔ پھر اس کے بعد تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہو جاؤں گا۔

ہر نماز کی آخری رکعت کے بعد آخری تشہد پڑھنے کے لیے بیٹھ جاؤں گا، جو کچھ اس طرح ہے : «ساری حمد وثنا، تمام دعائیں اور ہر طرح کے اچھے اعمال اور اقوال اللہ کے لئے ہیں، اے نبی! آپ پر سلام ہو اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکت نازل ہو، سلام ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد (ﷺ) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اے اللہ! تو محمد اور آل محمد پر درود بھیج، جس طرح تو نے ابراہیم اور ان کی آ ل پر بھیجا ہے،تو حمد و ستائش کے لائق ہے اور بزرگی والا ہے۔ اے اللہ! تو محمد اور آل محمد پر برکت نازل فرما، جس طرح تونے ابراہیم اور ان کی آل پر برکت نازل فرمائی ہے، تو حمد و ستائش کے لائق ہے اور بزرگی والا ہے۔»

ہر نماز کی آخری رکعت کے بعد آخری تشہد پڑھنے کے لیے بیٹھ جاؤں گا، جو کچھ اس طرح ہے : «ساری حمد وثنا، تمام دعائیں اور ہر طرح کے اچھے اعمال اور اقوال اللہ کے لئے ہیں، اے نبی! آپ پر سلام ہو اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکت نازل ہو، سلام ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد (ﷺ) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اے اللہ! تو محمد اور آل محمد پر درود بھیج، جس طرح تو نے ابراہیم اور ان کی آ ل پر بھیجا ہے،تو حمد و ستائش کے لائق ہے اور بزرگی والا ہے۔ اے اللہ! تو محمد اور آل محمد پر برکت نازل فرما، جس طرح تونے ابراہیم اور ان کی آل پر برکت نازل فرمائی ہے، تو حمد و ستائش کے لائق ہے اور بزرگی والا ہے۔»

مسلمان عورت کا حجاب

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {اے نبی! اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحب زادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وه اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں، اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی، پھر نہ ستائی جائیں گی اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے} [الاحزاب : 59]۔

اللہ تعالیٰ نے مسلمان عورت پر پردہ کرنے، جسم کے چھپانے لائق حصوں اور پورے بدن کو اپنے علاقے میں رائج لباس کے ذریعے اجنبی مردوں سے چھپانے کو واجب کیا ہے، اس کے لیے اپنے شوہر اور محارم کے علاوہ کسی اور کے سامنے حجاب اتارنا جائز نہيں ہے، یاد رہے کہ محارم سے مراد وہ لوگ ہیں جن سے کسی عورت کا ابدی طور پر شادی کرنا حرام ہو، محارم درج ذیل لوگ ہيں :«والد چاہے اوپر کا ہو، بیٹا چاہے نیچے کا ہو، چچا، مامو، بھائی، بھتیجا، بہن کی بیٹی، ماں کا شوہر جو ماں کے ساتھ تنہائی میں رہ چکا ہو، شوہر کا والد اگرچہ اوپر کا کیوں نہ ہو، شوہر کا بیٹا اگرچہ نیچے کا کیوں نہ ہو، بیٹی کا شوہر۔ رضاعت سے وہ سارے رشتے حرام ہو جاتے ہیں، جو نسب سے حرام ہوتے ہیں»۔

ایک مسلمان عورت اپنے لباس کے سلسلے میں درج ذیل اصول و ضوابط کا خیال رکھے گی :

 

  • 1
     اس کا پورا بدن ڈھکا ہوا ہو۔
  • 2 لباس ایسا نہ ہو کہ اسے عورت زینت کے لیے پہنتی ہو۔
  • 3 وہ اتنا شفاف نہ ہو کہ بدن جھلکے۔
  • 4  لباس ڈھیلا ڈھالا ہو، اتنا تنگ نہ ہو کہ بدن کے
  •                        نشیب و فراز ظاہر ہوں۔
  • 5  لباس معطر نہ ہو۔
  • 6 رد کے لباس کے جیسا نہ ہو۔
  • 7  لباس اس طرح کا نہ ہو جس طرح کا لباس غیر مسلم عورتیں
  •                        اپنی عبادتوں کے وقت اور تہواروں میں پہنتی ہیں۔

مومن کے کچھ اوصاف

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {بس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے، تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وه آیتیں ان کے ایمان کو اور زیاده کردیتی ہیں اور وه لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں} [انْفَال: 2]۔

مومن کے کچھ اوصاف:

  •  وہ سچ بولتا ہے، جھوٹ نہیں بولتا۔
  •  وہ عہد اور وعدے کا پابند ہوتا ہے۔
  •  کسی سے جھگڑتے وقت بد زبانی نہيں کرتا۔
  •  امانت ادا کرتا ہے۔
  • اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی پسند کرتا ہے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔
  • وہ سخی ہوتا ہے۔ 
  •  لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے۔
  •  صلہ رحمی کرتا ہے۔
  • اللہ کے ہر فیصلے سے مطمئن ہوتا ہے، خوش حالی کے وقت اس کا شکر ادا کرتا ہے اور پریشانی کے وقت صبر سے کام لیتا ہے۔
  • حیا کے وصف سے متصف ہوتا ہے۔
  • اللہ کی مخلوق پر رحم کرتا ہے۔
  • اس کا دل کینہ کپٹ سے پاک اور اس کے اعضا کسی پر زیادتی کرنے سے محفوظ رہتے ہیں۔
  • درگزر سے کام لیتا ہے۔
  • سود نہیں کھاتا اور سودی لین دین نہيں کرتا۔
  • زنا نہيں کرتا۔
  • شراب نہیں پیتا۔
  • پڑوسیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتا ہے۔
  • ظلم نہيں کرتا اور دھوکہ نہیں دیتا۔
  • چوری نہیں کرتا اور مکاری نہي
  • والدین کی فرماں برداری کرتا ہے، چاہے وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں اور بھلے کاموں میں ان کی بات مانتا ہے۔
  • وہ اپنی اولاد کی تربیت عمدہ طریقے سے کرتا ہے، انھیں شرعی واجبات کی ادائيگی کا حکم دیتا ہے اور گندی باتوں اور حرام چیزوں سے روکتا ہے۔
  • وہ غیر مسلموں کے دینی خصائص اور ایسی عادات میں جو ان کے شعار اور خصوصى پہچان کی حیثیت رکھتے ہوں ان کی مشابہت اختیار نہيں کرتا۔

میری سعادت میرے دین اسلام میں پنہاں ہے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت، لیکن با ایمان ہو تو ہم اسے یقیناً نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے، اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور ضرور دیں گے} [سورہ نحل: 97]۔

ایک مسلمان کے دل میں خوشی، مسرت اور سعادت کے جوت جگانے کا ایک بہت بڑا سبب اس کا اپنے رب سے ایسا براہ راست تعلق ہے، جس میں زندوں، مردوں اور بتوں کا واسطہ نہ ہو، چنانچہ خود اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے کہ وہ اپنے بندوں سے ہمیشہ قریب رہتا ہے، ان کی فریاد سنتا ہے اور ان کی دعائیں قبول کرتا ہے،اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : {جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں، ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وه مجھے پکارے قبول کرتا ہوں، اس لیے لوگوں کو بھی چاہیے کہ وه میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں، یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے} [البقرة: 186]۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اس سے دعا کریں اور دعا کو ان اہم عبادات میں سے قرار دیا ہے جن کو اختیار کرکے بندہ اللہ کی قربت حاصل کرتا ہے، اس کا فرمان ہے :{تمہارے رب نے کہا ہے کہ مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا} [غافر: 60]۔
ایک نیکوکار مسلمان ہمیشہ اپنے رب سے لو لگاتا ہے، اس کے سامنے دست بدعا ہوتا ہے اور صالح اعمال کے ذریعے اس کا تقرب حاصل کرتا ہے۔
اس کائنات میں اللہ تعالیٰ نے ہماری تخلیق ایک عظیم حکمت کے تحت کی ہے، ہمیں بے کار پیدا نہيں کیا ہے، وہ حکمت ہے صرف اسی کی عبادت کرنا اور کسی کو اس کا شریک نہ بنانا، اس نے ہمیں ایک ایسا ربانی اور ہمہ گیر دین دیا ہے جو ہماری خاص اور عام زندگی کے معاملات کو منظم کر دیتا ہے، اس نے اس انصاف پر مبنی شریعت کے ذریعے زندگی کی ضرورتوں یعنی ہمارے دین، ہماری جان، ہماری عزت و آبرو، ہماری عقل اور ہمارے اموال کو تحفظ فراہم کیا ہے، جس نے شریعت کے احکام کی پابندی کرتے ہوئے اور حرام چیزوں سے بچتے ہوئے زندگی گزاری اس نے ان ضروری اشیاء کی حفاظت کی اور سعادت بخش اور اطمینان کی زندگی گزاری۔
مسلمان کا اپنے رب سے مضبوط تعلق اسے راحت و سکون، خوشی و مسرت، اپنے رب کی معیت، اس کی توجہ اور نظر کرم کا احساس دلاتا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : {ایمان لانے والوں کا کارساز اللہ تعالیٰ خود ہے، وه انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لے جاتا ہے} [البقرۃ : 257]۔
یہ عظیم تعلق ایک وجدانی حالت ہے، جو اللہ کی عبادت کو نعمت سمجھنے اور اس سے ملنے کا شوق عطا کرتی ہے اور بندے کے دل کو سعادت کی دنیا کی سیر کراتی ہے اور اسے ایمان کی چاشنی کا احساس کراتی ہے۔
وہ چاشنی جسے وہی بیان کر سکتا ہے جو اس سے اطاعت گزاری میں منہمک ہوکر اور برائیوں سے بچ کر شاد کام ہوا ہو، یہی وجہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے : «جس نے اللہ کو رب، اسلام کو دین اور محمد ﷺ کو اپنا رسول تسلیم کرلیا اس نے ایمان کی چاشنی پالی۔»
سچ مچ جب انسان اپنے خالق کے سامنے ہمیشہ رہنے کا احساس اپنے دل میں رکھتا ہے، اسے اس کے اسماء و صفات کے ذریعے پہچانتا ہے، اس کی عبادت ایسے کرتا ہے جیسے اسے دیکھ رہا ہو، عبادت خالص اللہ کے لئے انجام دیتا ہے اور عبادت کے ذریعہ غیر اللہ سے کوئى بھى آرزو اور امید نہیں رکھتا ہے تو دنیا میں سعادت سے بھری ہوئی زندگی گزارتا ہے اور آخرت میں بہتر انجام کا حق دار بنتا ہے۔
یہاں تک کہ وہ مصائب بھی جو مومن کو دنیا میں لاحق ہوتے ہیں، ان کی گرمی، یقین کی ٹھنڈک، اللہ کے فیصلے پر رضامندی اور ہر حال میں اس کی حمد و ثنا کی بنا پر زائل ہو جاتی ہے۔
خوشی اور اطمینان کے حصول کے لیے ایک مسلمان کو چاہیے کہ اللہ کے ذکر اور قرآن کی تلاوت میں زیادہ سے زیادہ مشغول رہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : {جو لوگ ایمان لائے، ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں، یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے۔} [الرعد : 28]۔
مسلمان جتنا زیادہ اللہ کے ذکر اور قرآن کی تلاوت میں مشغول ہوتا جائے گا اللہ سے اس کے ربط اور اس کے نفس کی پاکی میں اتنا ہی اضافہ ہوتا جائے گا اور اس کا ایمان اتنا ہی مضبوط ہوتا جائے گا۔
اسی طرح ایک مسلمان کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ وہ اپنے دین کو اس کے صحیح مصادر سے سیکھنے کی کوشش کرے تاکہ اللہ کی عبادت بصیرت کے ساتھ کر سکے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے : «علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔‘‘ اسے چاہیے کہ اللہ کے اوامر کو جس نے اسے پیدا کیا ہے، بجا لائے، چاہے ان کی حکمت سے واقف ہو یا نہ ہو۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے: {اور (دیکھو) کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ کے بعد اپنے کسی امر کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا، (یاد رکھو) اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی جو بھی نافرمانی کرے گا وه صریح گمراہی میں پڑے گا} [الأحزاب: 36]۔.
وصلّى الله وسلّم على نبيّنا محمّدٍ وعلى آله وصحبه أجمعين۔

%MCEPASTEBIN%